لگا مجنوں کو زہر عشق کیا آب بقا ہو کر
وہ زندہ ہو گیا گویا محبت میں فنا ہو کر
بنے تھے میہماں آغاز الفت میں مرے دل میں
مکین مستقل اب بن گئے شیریں ادا ہو کر
مٹاتے جو رہے مجھ کو مجسم ظلم بن بن کر
انہیں کے دل پہ میں ابھرا کیا نقش وفا ہو کر
انہیں کو جلوہ ریزی بن گئی تھی چاندنی غم کی
افق پہ دل کی وہ چمکا کئے ماہ عزا ہو کر
کچھ ایسی تھی کشش مجھ میں خراج حسن بھی پایا
ہوا مشہور میں عشق و محبت کا خدا ہو کر
ٹھکانہ یاد ماضی کا اگر ہے تو مرا دل ہے
کہاں پر جائیں گی سرتاجؔ وہ دل سے جدا ہو کر

غزل
لگا مجنوں کو زہر عشق کیا آب بقا ہو کر
سرتاج عالم عابدی