EN हिंदी
لگا مجنوں کو زہر عشق کیا آب بقا ہو کر | شیح شیری
laga majnun ko zahr-e-ishq kya aab-e-baqa ho kar

غزل

لگا مجنوں کو زہر عشق کیا آب بقا ہو کر

سرتاج عالم عابدی

;

لگا مجنوں کو زہر عشق کیا آب بقا ہو کر
وہ زندہ ہو گیا گویا محبت میں فنا ہو کر

بنے تھے میہماں آغاز الفت میں مرے دل میں
مکین مستقل اب بن گئے شیریں ادا ہو کر

مٹاتے جو رہے مجھ کو مجسم ظلم بن بن کر
انہیں کے دل پہ میں ابھرا کیا نقش وفا ہو کر

انہیں کو جلوہ ریزی بن گئی تھی چاندنی غم کی
افق پہ دل کی وہ چمکا کئے ماہ عزا ہو کر

کچھ ایسی تھی کشش مجھ میں خراج حسن بھی پایا
ہوا مشہور میں عشق و محبت کا خدا ہو کر

ٹھکانہ یاد ماضی کا اگر ہے تو مرا دل ہے
کہاں پر جائیں گی سرتاجؔ وہ دل سے جدا ہو کر