لگا کے دھڑکن میں آگ میری برنگ رقص شرر گیا وہ
مجھے بنا کے سلگتا صحرا مرے جہاں سے گزر گیا وہ
یوں نیند سے کیوں مجھے جگا کر چراغ امید پھر جلا کر
ہوئی سحر تو اسے بجھا کر ہوا کے جیسا گزر گیا وہ
وہ ریت پر اک نشان جیسا تھا موم کے اک مکان جیسا
بڑا سنبھل کر چھوا تھا میں نے پہ ایک پل میں بکھر گیا وہ
وہ ساتھ میرے تھا جیسے ہر پل وہ دیکھتا تھا مجھے مسلسل
ذرا سا موسم بدل گیا تو چرا کے مجھ سے نظر گیا وہ
وہ ایک بچھڑے سے میت جیسا وہ اک بھلائے سے گیت جیسا
کوئی پرانی سی دھن جگا کر وجود و دل میں اتر گیا وہ
وہ دوست سارے تھے چار پل کے جو چل دیئے ہم سفر بدل کے
سحابؔ ناداں وہیں کھڑا ہے اسی ڈگر پر ٹھہر گیا وہ

غزل
لگا کے دھڑکن میں آگ میری برنگ رقص شرر گیا وہ
اجے سحاب