لگا کے آگ بجھانے کی بات کرتے ہو
پھپھولے دل میں سجانے کی بات کرتے ہو
نہیں سمجھتے مری حالت دروں کو تم
فقط جو کرتے بہانے کی بات کرتے ہو
سناؤں میں جو کبھی حال اپنی الفت کا
ثبوت مجھ سے دکھانے کی بات کرتے ہو
گزار کر میں یہاں آیا ہوں شب ظلمت
کرم نہ کر کے جلانے کی بات کرتے ہو
جو پوچھتا ہوں کبھی بے رخی کی میں علت
بنا کے بات بنانے کی بات کرتے ہو
کبھی ستم پہ جو بھرتا ہوں آہ تب بھی تو
مرے لہو میں نہانے کی بات کرتے ہو
ترے حضور میں آیا جو آہن بے بس
پنہا کے بیڑی نہ جانے کی بات کرتے ہو
غزل
لگا کے آگ بجھانے کی بات کرتے ہو
اخلاق احمد آہن