EN हिंदी
لفظوں کے یہ نگینے تو نکلے کمال کے | شیح شیری
lafzon ke ye nagine to nikle kamal ke

غزل

لفظوں کے یہ نگینے تو نکلے کمال کے

کرشن بہاری نور

;

لفظوں کے یہ نگینے تو نکلے کمال کے
غزلوں نے خود پہن لئے زیور خیال کے

ایسا نہ ہو گناہ کی دلدل میں جا پھنسوں
اے میری آرزو مجھے لے چل سنبھال کے

پچھلے جنم کی گاڑھی کمائی ہے زندگی
سودا جو کرنا کرنا بہت دیکھ بھال کے

موسم ہیں دو ہی عشق کے صورت کوئی بھی ہو
ہیں اس کے پاس آئنے ہجر و وصال کے

اب کیا ہے ارتھ ہین سی پستک ہے زندگی
جیون سے لے گیا وہ کئی دن نکال کے

یوں زندگی سے کٹتا رہا جڑتا بھی رہا
بچہ کھلائے جیسے کوئی ماں اچھال کے

یہ تاج یہ اجنتا ایلورا کے شاہکار
افسانے لگ رہے ہیں عروج و زوال کے