لفظوں کے یہ نگینے تو نکلے کمال کے
غزلوں نے خود پہن لیے زیور خیال کے
ایسا نہ ہو گناہ کی دلدل میں جا پھنسوں
اے میری آرزو مجھے لے چل سنبھال کے
پچھلے جنم کی گاڑھی کمائی ہے زندگی
سودا جو کرنا کرنا بہت دیکھ بھال کے
موسم ہیں دو ہی عشق کے صورت کوئی بھی ہو
ہیں اس کے پاس آئنے ہجر و وصال کے
اب کیا ہے ارتھ ہین سی پستک ہے زندگی
جیون سے لے گیا وہ کئی دن نکال کے
یوں زندگی سے کٹتا رہا جڑتا بھی رہا
بچہ کھلائے جیسے کوئی ماں اچھال کے
یہ تاج یہ اجنتا ایلورا کے شاہکار
افسانے سے لکھے ہیں عروج و زوال کے
غزل
لفظوں کے یہ نگینے تو نکلے کمال کے
کرشن بہاری نور

