لفظ کوئی زبان سے نکلا
تیر جیسے کمان سے نکلا
ڈھلتے سورج کو دیکھ کر سایہ
میرے ٹوٹے مکان سے نکلا
جب بھی منزل مجھے نظر آئی
میں سفر کی تکان سے نکلا
شام رنگیں کا گمشدہ سورج
صبح کے سائبان سے نکلا
آدمی کا یقین کیا کیجے
اب خدا بھی گمان سے نکلا
گھر میں فاقہ تھا جس جس کے چہرے پر
گھر سے نکلا تو شان سے نکلا
خود کو شو کیس میں سجا کر میں
خواہشوں کی دکان سے نکلا
غزل
لفظ کوئی زبان سے نکلا
رؤف صادق