لفظ کا کتنا تقدس ہے یہ کب جانتے ہیں
لوگ بس بات بنا لینے کا ڈھب جانتے ہیں
اپنی پہچان بھلا ڈولتے لفظوں میں کہاں
ضبط کا نشہ لرزتے ہوئے لب جانتے ہیں
سب نے گلکارئ دیوار سرا ہی لیکن
کتنے دیوار اٹھانے کا سبب جانتے ہیں
شہر والے تو ہواؤں میں گھلے زہر کا حال
رنگ تصویر سے اڑ جاتے ہیں تب جانتے ہیں
آپ چاہیں تو اسے جوش نمو کہہ لیجے
ہم مگر برف سلگنے کا سبب جانتے ہیں
دھوپ کا عکس بھی سجادؔ فقط سایہ ہے
کس طرح دن میں سما جاتی ہے شب جانتے ہیں
غزل
لفظ کا کتنا تقدس ہے یہ کب جانتے ہیں
سجاد بابر