لڑائیں آنکھ وہ ترچھی نظر کا وار رہنے دیں
لڑکپن ہے ابھی نام خدا تلوار رہنے دیں
کہیں کس منہ سے اپنا آئینہ بردار رہنے دیں
تمنا ہے غلامی میں ہمیں سرکار رہنے دیں
وہ کیوں بیخودؔ کو محو لذت دیدار رہنے دیں
وہ دیوانے نہیں غافل کو جو ہشیار رہنے دیں
مرے دم تک وفا و عشق بھی دنیا میں باقی ہیں
مسیحائی یہی ہے وہ مجھے بیمار رہنے دیں
قیامت آ گئی اب تو گلا مردار کا کاٹیں
کہاں تک موت کو زندہ ترے بیمار رہنے دیں
اسی پردے نے عمر خضر شوق دید کو بخشی
قیامت تک وہ اپنی گرمئ بازار رہنے دیں
سن اے قاصد انہیں ضد ہے تو ہم کو بات کی پچ ہے
مناسب وہ اگر سمجھیں تو یہ تکرار رہنے دیں
مرے ماتم کی کیا جلدی ہے کیوں زیور بڑھاتے ہیں
ابھی آراستہ وہ حسن کا بازار رہنے دیں
اگر منکر نکیر آتے ہیں تربت میں تو آ جائیں
نہ چھیڑیں وہ مجھے محو جمال یار رہنے دیں
قفس میں بیکسوں کو کس نے پوچھا کون پوچھے گا
کہاں تک زخم کی صورت میں وا منقار رہنے دیں
نگاہ شرم کے زخمی ہیں، تیغ ناز کے بسمل
تڑپنے کے لیے ہم کو پس دیوار رہنے دیں
یہ فقرے ہیں، یہ چالیں ہیں، نظر لاکھوں میں اٹھ جاتی
عدو کے سامنے وہ ہو گئے نا چار رہنے دیں
جگر میں درد دل میں ٹیس دم گھٹنے لگا اپنا
بھلا ہم ایک گھر میں اور دو بیمار رہنے دیں
محبت سے ہمیں نفرت حسینوں سے ہمیں وحشت
دل آزاری کی باتیں اب یہ دل آزار رہنے دیں
ہمارے کان لفظ بے وفا سن ہی نہیں سکتے
یہ خلعت تو عدو کے واسطے سرکار رہنے دیں
مری تربت پہ ان کو صرف بے جا کی ضرورت کیا
کبھی کام آئے گا یہ فتنۂ رفتار رہنے دیں
مقدر کو بدل دیں وہ زمانے کو خفا کر دیں
مگر اپنے تصور کو مرا غم خوار رہنے دیں
نظر ان کی کہیں پتلی کہیں آنکھیں کہیں ان کی
یہ گردش دوسری صورت کی ہے پرکار رہنے دیں
وہ کیوں مجھ کو تسلی دیں وہ کیوں پوچھیں مرے آنسو
گھرا ہے ابر غم آنکھوں کو گوہر بار رہنے دیں
کوئی بیخودؔ کی جانب سے ذرا سمجھائے واعظ کو
عبادت کو فرشتے ہیں اسے مے خوار رہنے دیں
غزل
لڑائیں آنکھ وہ ترچھی نظر کا وار رہنے دیں
بیخود دہلوی