لبوں پہ آ کے رہ گئیں شکایتیں کبھی کبھی
ترے حضور پڑ گئیں یہ الجھنیں کبھی کبھی
بس اک بساط آرزو بکھر گئی تو کیا ہوا
اجڑ گئی ہیں محفلوں کی محفلیں کبھی کبھی
ہزار بار حسن خود ہی نادم جفا ہوا
اگرچہ عشق نے بھی کیں شکایتیں کبھی کبھی
کبھی کبھی تری نظر کا آسرا بھی مل گیا
سمٹ کے رہ گئیں ہیں غم کی وسعتیں کبھی کبھی
تھیں دونوں سمت خواہشیں یہ فیصلہ نہ ہو سکا
بھڑک اٹھیں ہم ایک ساتھ یا جلیں کبھی کبھی
غزل
لبوں پہ آ کے رہ گئیں شکایتیں کبھی کبھی
شہزاد احمد