لبوں پر پیاس سب کے بے کراں ہے
ہر اک جانب مگر اندھا کنواں ہے
ہے کوئی عکس رنگیں آئنہ پر
جب ہی تو آئنہ میں کہکشاں ہے
جدائی کا نہ قصہ وصل کا ہے
ادھوری کس قدر یہ داستاں ہے
کسی سے کوئی بھی ملتا نہیں اب
ہر اک انساں یہاں تو بد گماں ہے
نہیں کچھ بولتے ہیں جبر سہہ کر
لگے ترشی ہوئی سب کی زباں ہے
وطن میں رہ کے بھی ہے بے وطن یہ
بہت مظلوم یہ اردو زباں ہے
کسی کا درد بانٹے غم میں روئے
ظفرؔ احساس لوگوں میں کہاں ہے
غزل
لبوں پر پیاس سب کے بے کراں ہے
ظفر اقبال ظفر