لبوں پر پیاس ہو تو آس کے بادل بھرے رکھیو
سرابوں کے سفر میں اس طرح گلشن ہرے رکھیو
یہ بازار جہاں ہے بے غرض کوئی نہیں ملتا
پرکھ کر جب تلک دیکھو نہیں سب کو پرے رکھیو
وفا کے بول پر بے مول بک جاتی ہے یہ دنیا
اگر ہو بے سر و ساماں تو یہ سکے کھرے رکھیو
کسی کے سامنے دامن پسارے سے ملے گا کیا
اگر انسان ہو خودداریوں سے گھر بھرے رکھیو
شرابوں سے بھرے پیالے مجھے تکنے کی عادت ہے
بدن بھیگا رسیلے ہونٹ نینا مد بھرے رکھیو
نہ جانے کب کسی کے خواب سے یہ دل دھڑک جائے
اگر سونے لگو تو ہاتھ سینے پر دھرے رکھیو
غزل
لبوں پر پیاس ہو تو آس کے بادل بھرے رکھیو
ابراہیم اشکؔ