لب پہ ہے فریاد اشکوں کی روانی ہو چکی
اک کہانی چھڑ رہی ہے اک کہانی ہو چکی
مہر کے پردے میں پوری دل ستانی ہو چکی
بندہ پرور رحم کیجیے مہربانی ہو چکی
میرا دل تاکا گیا جور و جفا کے واسطے
جب کہ پورے رنگ پر ان کی جوانی ہو چکی
جائیے بھی کیوں مجھے جھوٹی تشفی دیجیے
آپ سے اور میرے دل کی ترجمانی ہو چکی
آ گیا اے سننے والے اب مجھے پاس وفا
اب بیاں روداد دل میری زبانی ہو چکی
آخری آنسو مری چشم الم سے گر چکا
سننے والو ختم اب میری کہانی ہو چکی
ہم بھی تنگ آ ہی گئے آخر نیاز و ناز سے
ہاں خوشا قسمت کہ ان کی مہربانی ہو چکی
سننے والے صورت تصویر بیٹھے ہیں تمام
حضرت بہزادؔ بس جادو بیانی ہو چکی
غزل
لب پہ ہے فریاد اشکوں کی روانی ہو چکی
بہزاد لکھنوی