EN हिंदी
لب پہ عیش عہد ماضی کا ہے افسانا ہنوز | شیح شیری
lab pe aish-e-ahd-e-mazi ka hai afsana hanuz

غزل

لب پہ عیش عہد ماضی کا ہے افسانا ہنوز

مانی جائسی

;

لب پہ عیش عہد ماضی کا ہے افسانا ہنوز
جا چکی ہے فصل گل اور میں ہوں دیوانا ہنوز

چین کیسا قبر میں سر پر ہے روز باز پرس
داستان درد ہستی کو ہے دہرانا ہنوز

اب بھی شرح سوز دل کرتی ہے پروانے کی خاک
سن رہی ہے شمع خاموشی سے افسانا ہنوز

پھینک دی ساری شراب اے وائے بے صبریٔ شوق
لب تک آنے بھی نہیں پایا تھا پیمانا ہنوز

کیا مٹے امید تاثیر دعا کا اضطراب
دل ہے شان رحمت باری کا دیوانا ہنوز

زندگی آخر ہوئی لیکن ہوس کی حد نہیں
قبر بننے کو ہے اور بنتا ہے کاشانہ ہنوز

نا امیدی بھی مداوا بے قراری کا نہیں
مشغلہ دل کا ہے تم کو یاد فرمانا ہنوز

عمر بھر کھایا فریب دوستی لیکن یہ دل
رسم و راہ اہل عالم سے ہے بیگانا ہنوز

زیست کی ہر سانس ہوتی ہے ہم آغوش فنا
ہر نفس ہے موت اور باقی ہے مر جانا ہنوز

کہتے کہتے عرصۂ محشر تک آیا ہوں مگر
نا مکمل ہے غم ہستی کا افسانہ ہنوز

پیہم آنکھوں کا جھپکنا کیا جز ایمائے سجود
ان اشاروں سے مگر مانیؔ ہے بیگانا ہنوز