لب کیا کھلے کہ قوت گویائی چھن گئی
پیش نگاہ وہ تھے کہ بینائی چھن گئی
ہونٹوں پہ دہشتوں کی تھی طغیانی ہر طرف
سارے گواہ خشک تھے سچائی چھن گئی
اوروں کے نام ہی سہی سب صحبتیں تری
تیرے بغیر بھی مری تنہائی چھن گئی
ظلم و ستم کی تخت نشینی کے دن جو آئے
گھر گھر اداس شہر کی رعنائی چھن گئی
دست نگاہ جب بھی اٹھے ہیں افق کی سمت
آفاق کے نصیب کی گہرائی چھن گئی
اتنی لذیذ تر تھیں غلط کاریاں صباؔ
مل کر گلے برائی سے اچھائی چھن گئی
غزل
لب کیا کھلے کہ قوت گویائی چھن گئی
علیم صبا نویدی