EN हिंदी
لب کیا کھلے کہ قوت گویائی چھن گئی | شیح شیری
lab kya khule ki quwwat-e-goyai chhin gai

غزل

لب کیا کھلے کہ قوت گویائی چھن گئی

علیم صبا نویدی

;

لب کیا کھلے کہ قوت گویائی چھن گئی
پیش نگاہ وہ تھے کہ بینائی چھن گئی

ہونٹوں پہ دہشتوں کی تھی طغیانی ہر طرف
سارے گواہ خشک تھے سچائی چھن گئی

اوروں کے نام ہی سہی سب صحبتیں تری
تیرے بغیر بھی مری تنہائی چھن گئی

ظلم و ستم کی تخت نشینی کے دن جو آئے
گھر گھر اداس شہر کی رعنائی چھن گئی

دست نگاہ جب بھی اٹھے ہیں افق کی سمت
آفاق کے نصیب کی گہرائی چھن گئی

اتنی لذیذ تر تھیں غلط کاریاں صباؔ
مل کر گلے برائی سے اچھائی چھن گئی