لب نازک پہ جب ہنسی آئی
آگ ہر سو بکھیرتی آئی
جانے کیا بیٹھے بیٹھے یاد آیا
رخ عاشق پہ تازگی آئی
شام غم درد دل بڑھانے کو
چاند کے ساتھ چاندنی آئی
آ گئے یاد غم زمانے کے
کبھی بھولے سے جو ہنسی آئی
بن گئی جان پر محبت میں
دوستی بن کے دشمنی آئی
لذت ظلم کے ہیں سب مداح
راس ان کو ستم گری آئی
آنکھ لڑتے ہی مچ گئی ہلچل
بات سننے میں تو یہی آئی
جانے کیوں دیکھ کر تجھے ساقی
آج پھر یاد مے کشی آئی
ماہرؔ آیا جو ذکر حب وطن
یاد چکبستؔ لکھنوی آئی

غزل
لب نازک پہ جب ہنسی آئی
ماہر بلگرامی