EN हिंदी
لب گل کی ہنسی دے گی نہ تم کو روشنی اپنی | شیح شیری
lab-e-gul ki hansi degi na tumko raushni apni

غزل

لب گل کی ہنسی دے گی نہ تم کو روشنی اپنی

نیاز حیدر

;

لب گل کی ہنسی دے گی نہ تم کو روشنی اپنی
ذرا شبنم کے اشکوں میں بھی دیکھوں زندگی اپنی

ہمیں کیا غم کہ ہم اک زمزمہ پرداز گلشن تھے
بہاروں کو ہوئی محسوس گلشن میں کمی اپنی

مجھے محفل کی نظروں سے نظر آتا ہے محفل میں
گوارا خاطر رنگیں کو ہے سادہ دلی اپنی

مرے دل کی طرف اک بار بھیجی تھی کرن اس نے
بھلا دی چاند نے اس رات سے تابندگی اپنی

جو رہبر کارواں کو منزلوں کے نام پر لوٹے
بتا اے ہم سفر اچھی نہیں کیا گمرہی اپنی

یہ سب جام و سبو خالی سویرا تشنہ کامی کا
کہ اب کل کے لیے رہنے دے کچھ ساقی گری اپنی

شراب و شاہد و شہد ترنم نشۂ عشرت
انہی میں پرورش پاتی رہی ہے تشنگی اپنی

نگہ گستاخ تیور تند کون آیا سر محفل
نیازؔ آتے ہی تیرے فکر سب کو ہو گئی اپنی