EN हिंदी
لاکھ اونچی سہی اے دوست کسی کی آواز | شیح شیری
lakh unchi sahi ai dost kisi ki aawaz

غزل

لاکھ اونچی سہی اے دوست کسی کی آواز

زاہد کمال

;

لاکھ اونچی سہی اے دوست کسی کی آواز
اپنی آواز بہر حال ہے اپنی آواز

اب کنویں پر نظر آتا نہیں پیاسوں کا ہجوم
تیرے پازیب کی کیا ٹوٹ کے بکھری آواز

وہ کسی چھت کسی دیوار سے روکے نہ رکی
گرم ہونٹوں کے تصادم سے جو ابھری آواز

لوگو سچ مت کہو سچ کی نہیں قیمت کوئی
کسی دیوانے کی سناٹے میں گونجی آواز

بوڑھی صدیوں کی جڑیں کاٹ دیا کرتی ہے
چوٹ کھائے ہوئے جذبات کی زخمی آواز

میں نے جب جب کہا تشنہ ہیں ادب کی قدریں
دب گئی کتنی ہی آوازوں میں میری آواز

وضع داری نے کہیں کا نہیں رکھا زاہدؔ
ورنہ کتنوں نے بدل رکھی ہے اپنی آواز