لاکھ تقدیر پہ روئے کوئی رونے والا
صرف رونے سے تو کچھ بھی نہیں ہونے والا
بار غم گل ہے کہ پتھر ہے یہ موقوف اس پر
کس سلیقے سے اسے ڈھوتا ہے ڈھونے والا
کوئی تدبیر یا تعویذ نہیں کام آتی
حادثہ ہوتا ہے ہر حال میں ہونے والا
تو ہے شاعر تجھے ہرگز نہ سہائے رونا
تیرا ہر اشک ہے گیتوں میں پرونے والا
کھول اٹھتا ہے لہو دیکھ کے اپنا یارو
فصل کو کاٹے نہ جب فصل کو بونے والا
موت کی گود میں جب تک نہیں تو سو جاتا
تو صداؔ چین سے ہرگز نہیں سونے والا
غزل
لاکھ تقدیر پہ روئے کوئی رونے والا
صدا انبالوی