EN हिंदी
لاکھ ناداں ہیں مگر اتنی سزا بھی نہ ملے | شیح شیری
lakh nadan hain magar itni saza bhi na mile

غزل

لاکھ ناداں ہیں مگر اتنی سزا بھی نہ ملے

وارث کرمانی

;

لاکھ ناداں ہیں مگر اتنی سزا بھی نہ ملے
چارہ سازوں کو مری شام بلا بھی نہ ملے

حسرت آگیں تو ہے ناکامیٔ منزل لیکن
لطف تو جب ہے کہ خود اپنا پتا بھی نہ ملے

کچھ نگاہوں سے غم دل کی خبر ملتی ہے
ورنہ ہم وہ ہیں کہ باتوں سے ہوا بھی نہ ملے

خواہش داد رسی کیا ہو ستمگر سے جہاں
آنکھ میں شائبۂ عذر جفا بھی نہ ملے

اس قدر قحط بصیرت بھی نہیں اے واعظ
ہم بتوں کے لیے نکلیں تو خدا بھی نہ ملے

عشق وہ عرصۂ پر خار ہے ہمدم کہ جہاں
زندگی راس نہ آئے تو قضا بھی نہ ملے

کیا قیامت ہے طبیعت کی روانی وارثؔ
کوئی ڈھونڈھے تو نشان کف پا بھی نہ ملے