EN हिंदी
لاکھ لاکھ احسان جس نے درد پیدا کر دیا | شیح شیری
lakh lakh ehsan jis ne dard paida kar diya

غزل

لاکھ لاکھ احسان جس نے درد پیدا کر دیا

آغا شاعر قزلباش

;

لاکھ لاکھ احسان جس نے درد پیدا کر دیا
جس نے اس دل کو ہتھیلی کا پھپھولا کر دیا

دیکھنا مغرب کی جانب یہ شفق کا پھولنا
ڈوبتے سورج نے سونے میں سہاگا کر دیا

زندگی اور موت میں اک عمر سے تھی کشمکش
وقت پر دو ہچکیوں نے پاک جھگڑا کر دیا

اک شرارہ سا قریب شمع جا کر مل گیا
آتش پروانہ نے شعلے کو دونا کر دیا

بلبل تصویر ہوں اب بولنا ہے ناگوار
تیری اس ہنگامہ آرائی نے چپکا کر دیا

اس کو کہتے ہیں لگی پروانے جل بجھ ڈوب مر
روتے روتے شمع نے آخر سویرا کر دیا

دے دیا آنکھیں لڑا کر اس پری پیکر نے جام
میں نشے میں چور تھا ہی اور اندھا کر دیا

کیا گرامی ہستیاں ہیں حضرت عثمانؔ و شادؔ
شاعرؔ ان دونوں نے دنیا میں اجالا کر دیا