لاکھ ہو ماضی دامن گیر
مستقبل کی دیکھ لکیر
سب سے محبت کرنا سیکھ
کہہ کے گیا کل ایک فقیر
سب اللہ کے بندے ہیں
کوئی نہیں دنیا میں حقیر
عہد جوانی بیت گیا
کر اب جینے کی تدبیر
کوہ کن اب بھی زندہ ہے
لا نہ سکا جو جوئے شیر
کیسے میں اس کو شعر کہوں
جس میں نہ ہو کوئی تاثیر
دل کش ہیں کردار یہ سب
لیلیٰ ہو شیریں یا ہیر
اپنی قسمت آپ بنا
کیوں ہے گلہ سنج تقدیر
سوز دروں بھی نعمت ہے
نام اسی کا ہے اکسیر
سوزؔ غم جاناں ہی تو ہے
اہل محبت کی جاگیر

غزل
لاکھ ہو ماضی دامن گیر
سردار سوز