EN हिंदी
لاکھ دل مست ہو مستی کا عیاں راز نہ ہو | شیح شیری
lakh dil-mast ho masti ka ayan raaz na ho

غزل

لاکھ دل مست ہو مستی کا عیاں راز نہ ہو

جلیلؔ مانک پوری

;

لاکھ دل مست ہو مستی کا عیاں راز نہ ہو
یہ وہ شیشہ ہے کہ ٹوٹے بھی تو آواز نہ ہو

خوف ہے موسم گل میں کہ صبا کا جھونکا
طائر ہوش کے حق میں پر پرواز نہ ہو

دل بہت بلبل شیدا کا ہے نازک گلچیں
پھول گل زار کے یوں توڑ کہ آواز نہ ہو

کیا قیامت ہے وہ دل توڑ رہے ہیں میرا
اس گماں پر کہ چھپا اس میں کوئی راز نہ ہو

آئینہ ہاتھ میں ہے حسن کا نظارہ ہے
ان سے کہہ دو مری حالت نظر انداز نہ ہو

ہو کے وہ مست مئے ناز گلے لپٹے ہیں
ہوش کمبخت کہیں تفرقہ پرداز نہ ہو

اس گرفتار کی پوچھو نہ تڑپ جس کے لیے
در قفس کا ہو کھلا طاقت پرواز نہ ہو

اہل دل کو جو لٹاتی ہے صدا نغمے کی
پردۂ ساز میں پنہاں تری آواز نہ ہو

تھام لینے دو کلیجہ مجھے ہاتھوں سے جلیلؔ
قصۂ درد جگر کا ابھی آغاز نہ ہو