لاکھ چاہا میں نے پردہ سامنے آیا نہیں
میری آنکھوں نے اسے ڈھونڈا مگر پایا نہیں
رہرو دشت تمنا کا سفر مشکل ہوا
دھوپ تا حد نظر ہے اور کہیں سایہ نہیں
کچھ دنوں سے بڑھ رہا ہے میرے دل کا اضطراب
اک بھی لمحے نے مجھے آرام پہنچایا نہیں
نقش ہے میری صدا اب تک در و دیوار پر
تیرے کانوں سے تو اک بھی لفظ ٹکرایا نہیں
جتنے اصلی پھول تھے گلدان میں مرجھا گئے
کاغذی پھولوں میں کوئی پھول کمہلایا نہیں
ابر گزرا ہے مری کشت تمنا سے رشیدؔ
سایہ تو اس نے کیا ہے مینہ برسایا نہیں

غزل
لاکھ چاہا میں نے پردہ سامنے آیا نہیں
رشید عثمانی