لاکھ بدلا بدل نہیں پائے
آئنے سے نکل نہیں پائے
یوں تو دنیا جہان گھومے مگر
لوگ گھر سے نکل نہیں پائے
سامنے تجھ کو یک بیک پا کر
لفظ ہم سے سنبھل نہیں پائے
کتنے موتی ابھی بھی ایسے ہیں
سیپ سے جو نکل نہیں پائے
کاغذی لوگ گل گئے کب کے
ہم تھے پتھر سو گل نہیں پائے

غزل
لاکھ بدلا بدل نہیں پائے
سون روپا وشال