لا مکاں سے بھی پرے خود سے ملاقات کریں
کھل کے تنہائی کی وسعت پہ ذرا بات کریں
ہر بڑے نام کو چھوٹوں سے جلا ملتی ہے
شہر کی حاشیہ آرائی مضافات کریں
لاج ویرانی کی رکھنی ہے چلو اہل جنوں
آبلہ پائی سے آباد خرابات کریں
کھیت سوکھے تو ہوا پھر سے سنک جائے گی
آپ بادل ہیں تو دعویٰ نہیں برسات کریں
گل نوازو ہمیں کانٹوں نے نوازا ہے بہت
ہم پہ واجب ہے کہ زخموں کی مدارات کریں
عیش آوارگی کیا کیا تھے تری گلیوں میں
سوچ کی پریاں وہیں اب گزر اوقات کریں
میں اگر ذکر بھی اس کا نہ کروں شعروں میں
استعارات علامات اشارات کریں
متن کو حسن کے اعراب عطا ہم نے کئے
ہم سے تشریح طلب جسم کی آیات کریں
غیر محرم سے بچا اپنی غزل کو عازمؔ
چھیڑخوانی نہ کہیں مولوی حضرات کریں
غزل
لا مکاں سے بھی پرے خود سے ملاقات کریں
عین الدین عازم