EN हिंदी
کیوں یہ کہتے ہو کیا نہیں معلوم | شیح شیری
kyun ye kahte ho kya nahin malum

غزل

کیوں یہ کہتے ہو کیا نہیں معلوم

نادر شاہجہاں پوری

;

کیوں یہ کہتے ہو کیا نہیں معلوم
کیا مرا مدعا نہیں معلوم

درد دل کی دوا نہیں معلوم
اب امید شفا نہیں معلوم

جب سے تم نے نگاہ پھیری ہے
دل کو کیا ہو گیا نہیں معلوم

شکوہ سمجھو نہ تم تو کہہ بھی دوں
تم کو رسم وفا نہیں معلوم

جان لینے کی ٹھان لی ہے کیا
کیوں ہو مجھ سے جدا نہیں معلوم

شکوۂ بخت ہے عبث نادرؔ
تجھ کو رب کی رضا نہیں معلوم