EN हिंदी
کیوں شوق بڑھ گیا رمضاں میں سنگار کا | شیح شیری
kyun shauq baDh gaya ramazan mein singar ka

غزل

کیوں شوق بڑھ گیا رمضاں میں سنگار کا

احمد حسین مائل

;

کیوں شوق بڑھ گیا رمضاں میں سنگار کا
روزہ نہ ٹوٹ جائے کسی روزہ دار کا

ان کا وہ شوخیوں سے پھڑکنا پلنگ پر
وہ چھاتیوں پہ لوٹنا پھولوں کے ہار کا

حور آئے خلد سے تو بٹھاؤں کہاں اسے
آراستہ ہو ایک تو کونا مزار کا

شیشوں نے طرز اڑائی رکوع و قیام کی
کیا ان میں ہے لہو کسی پرہیزگار کا

کیوں غش ہوئے کلیم تجلی طور پر
وہ اک چراغ تھا مرے دل کے مزار کا

بعد فنا بھی صاف نہیں دل رقیب سے
گنبد کھڑا ہوا ہے لحد پر غبار کا

کثرت کا رنگ شاہد وحدت کا ہے بناؤ
وہ ایک ہی سے نام ہے ہژدہ ہزار کا

ناقوس بن کے پوچھنے جاؤں اگر مزاج
بت بھی کہیں گے شکر ہے پروردگار کا

دولہا کی یہ برات ہے رسمیں ادا کرو
در پر جنازہ آیا ہے اک جاں نثار کا

کیا کیا تڑپ تڑپ کے سرافیل گر پڑے
دم آ گیا جو صور میں مجھ بے قرار کا

سرمہ کے ساتھ پھیل کے کیا وہ بھی مٹ گیا
کیوں نام تک نہیں تری آنکھوں میں پیار کا

کیا رات سے کسی کی نظر لگ گئی اسے
اچھا نہیں مزاج دل بے قرار کا

آنکھیں مری فقیر ہوئیں شوق دید میں
تسمہ کمر میں ہے نگۂ انتظار کا

لوٹوں مزے جو بازیٔ شطرنج جیت لوں
اس کھیل میں تو وعدہ ہے بوس کنار کا

اللہ مرا غفور محمد مرے شفیع
مائلؔ کو خوف کچھ نہیں روز شمار کا