EN हिंदी
کیوں سادگی سے اس کی تکرار ہو گئی ہے | شیح شیری
kyun sadgi se uski takrar ho gai hai

غزل

کیوں سادگی سے اس کی تکرار ہو گئی ہے

سید حامد

;

کیوں سادگی سے اس کی تکرار ہو گئی ہے
تہذیب سے طبیعت بیزار ہو گئی ہے

نکلی زبان سے تھی چھوٹی سی بات لیکن
مابین دو دلوں کے دیوار ہو گئی ہے

کلیاں کھلا رہی تھی شوخی نسیم آسا
جب طنز بن گئی ہے تلوار ہو گئی ہے

دنیا کے مشغلوں میں یہ گھر گیا ہے ایسا
اب دل سے بات کرنی دشوار ہو گئی ہے

پھیری نگاہ مجھ سے جیسے نہ جانتے ہوں
آنکھوں کی سعئ اخفا اظہار ہو گئی ہے

اوپر تلے لگے ہیں انبار ہر طرح کے
نگری یہ حافظہ کی بازار ہو گئی ہے

آئی ہے ارض ساری اب اس کے دائرے میں
تخیل پا بہ جولاں پر کار ہو گئی ہے

حامی بھری تھی دل نے تغییر رنگ دیکھو
جب تک لبوں پہ آئی انکار ہو گئی ہے