EN हिंदी
کیوں نہ نیرنگ جنوں پر کوئی قرباں ہو جائے | شیح شیری
kyun na nairang-e-junun par koi qurban ho jae

غزل

کیوں نہ نیرنگ جنوں پر کوئی قرباں ہو جائے

فانی بدایونی

;

کیوں نہ نیرنگ جنوں پر کوئی قرباں ہو جائے
گھر وہ صحرا کہ بہار آئے تو زنداں ہو جائے

برق دم لینے کو ٹھہرے تو رگ جاں ہو جائے
فتنۂ حشر مجسم ہو تو انساں ہو جائے

جوہر آئینہ دل ہے وہ تصویر ہے تو
دل وہ آئینہ کہ تو دیکھ کے حیراں ہو جائے

غم وہ راحت جسے قسمت کے دھنی پاتے ہیں
دم وہ مشکل ہے کہ موت آئے تو آساں ہو جائے

عشق وہ کفر کہ ایمان ہے دل والوں کا
عقل مجبور وہ کافر جو مسلماں ہو جائے

ذرہ وہ راز بیاباں ہے جو افشا نہ ہوا
دشت وحشت ہے وہ ذرہ جو بیاباں ہو جائے

غم محسوس وہ باطل جسے کہتے ہیں مجاز
دل کی ہستی وہ حقیقت ہے جو عریاں ہو جائے

خلد مے خانہ کو کہتے ہیں بقول واعظ
کعبہ بت خانے کو کہتے ہیں جو ویراں ہو جائے

سجدہ کہتے ہیں در یار پہ مر جانے کو
قبلہ وہ سر ہے جو خاک رہ جاناں ہو جائے

موت وہ دن بھی دکھائے مجھے جس دن فانیؔ
زندگی اپنی جفاؤں پہ پشیماں ہو جائے