کیوں نہ ہم یاد کسی کو سحر و شام کریں
ہو نہ اتنا بھی محبت میں تو کیا کام کریں
ہائے تربت پہ مری ناز سے کہنا ان کا
آپ لیٹے ہوئے اب حشر تک آرام کریں
اس زمانے میں ترے بادیہ پیما بھی عجب
جم کے بیٹھیں جو کہیں مثل نگیں نام کریں
کعبہ و دیر کا مٹ جائے جہاں سے جھگڑا
جلوۂ حسن حقیقت وہ اگر عام کریں
شیخ جی یہ بھی کوئی بات ہے میخانے میں
آپ روزہ رہیں ہم شغل مئے و جام کریں
مفت خوری کا طریقہ نہیں اچھا صاحب
ہم بھی کچھ کام کریں آپ بھی کچھ کام کریں
آج ہی کیوں نہ گلے مل لیں کسے کل معلوم
ہم کہاں صبح کریں آپ کہاں شام کریں
آپ کا نقش قدم پیش نظر ہے جن کے
سجدۂ شوق نہ کیوں کر وہ بہ ہر گام کریں
ہنس کے فرماتے ہیں مجھ عاشق گمنام سے وہ
آپ بدنام جو ہو جائیں بڑا نام کریں
سچ تو ہے اپنی ہی غفلت نے ہے روندا ہم کو
کس لیے ہم گلۂ گردش ایام کریں
مل کے گلچیں سے یہ صیاد نے کی ہے سازش
پھونک کر صحن چمن برق کو بدنام کریں

غزل
کیوں نہ ہم یاد کسی کو سحر و شام کریں
رحمت الٰہی برق اعظمی