کیوں نہ اپنی خوبیٔ قسمت پہ اتراتی ہوا
پھول جیسے اک بدن کو چھو کر آئی تھی ہوا
یوں خیال آتا ہے اس کا یاد آئے جس طرح
گرمیوں کی دوپہر میں شام کی ٹھنڈی ہوا
اور ابھی سلگیں گے ہم کمرے کے آتش دان میں
اور ابھی کہسار سے اترے گی برفیلی ہوا
ہم بھی اک جھونکے سے لطف اندوز ہو لیتے کبھی
بھولے بھٹکے اس گلی میں بھی چلی آتی ہوا
ایک زہریلا دھواں بکھرا گئی چاروں طرف
سب کو اندھا کر گئی ایسی چلی اندھی ہوا
اس نے لکھ بھیجا ہے یہ پیپل کے پتے پر مجھے
کیا تجھے راس آ گئی بجلی کے پنکھے کی ہوا
کیوں کر اے عابدؔ بجھا پاتا میں اپنی تشنگی
مجھ تک آنے ہی سے پہلے ہو گیا پانی ہوا
غزل
کیوں نہ اپنی خوبیٔ قسمت پہ اتراتی ہوا
عابد مناوری