کیوں مل رہی ہے ان کو سزا چیختی رہی
سنسان وادیوں میں ہوا چیختی رہی
ہونٹوں کی لرزشوں میں رہے حرف منجمد
سینے میں دفن ہو کے دعا چیختی رہی
صدمے کی شدتوں سے ہر اک آنکھ خشک تھی
یہ دیکھ کر فلک پہ گھٹا چیختی رہی
اک مصلحت کے سامنے مجبور تو ہوئے
لیکن قدم قدم پہ انا چیختی رہی
رخصت ہوئے تو ریل کی سیٹی میں دیر تک
ایسا لگا کہ جیسے وفا چیختی رہی

غزل
کیوں مل رہی ہے ان کو سزا چیختی رہی
سید انوار احمد