کیوں مسافت میں نہ آئے یاد اپنا گھر مجھے
ٹھوکریں دینے لگے ہیں راہ کے پتھر مجھے
کس کا یہ احساس جاگا دوپہر کی دھوپ میں
ڈھونڈنے نکلا ہے ننگے پاؤں ننگے سر مجھے
جس میں آسودہ رہا میں وہ تھا کاغذ کا مکاں
ایک ہی جھونکا ہوا کا کر گیا بے گھر مجھے
میں تو ان آلائشوں سے دور اک آئینہ تھا
آ لگا ہے میری اپنی سوچ کا پتھر مجھے
آ گیا تھا میں ستم کی بستیوں کو روند کر
کیا خبر تھی خود نگل جائے گا اپنا گھر مجھے
اب انا کی چار دیواری کو گرنا چاہئے
قید کر رکھا ہے اپنی ذات کے اندر مجھے
فوقؔ سیلاب غم دوراں بہا کر لے گیا
دیکھتا ہی رہ گیا اک حسن کا پیکر مجھے
غزل
کیوں مسافت میں نہ آئے یاد اپنا گھر مجھے
فوق لدھیانوی