کیوں کہہ کے دل کا حال اسے بد گماں کروں
یہ راز وہ نہیں ہے جسے میں بیاں کروں
مجھ کو یہ ضد کہ وصل کا اقرار تم سے لوں
تم کو یہ ہٹ کہ میں نہ کبھی تجھ سے ہاں کروں
یہ کہہ رہی ہے مجھ سے کسی کی نگاہ شرم
فرصت اگر حیا سے ملے شوخیاں کروں
تو مجھ کو آزما کے وفاداریوں میں دیکھ
میں بے وفائیوں میں ترا امتحاں کروں
اکتا گیا ہے شرع کی پابندیوں سے جی
دل چاہتا ہے بیعت پیر مغاں کروں
بیخودؔ رفیق ہے نہ کوئی ہم طریق ہے
دل پر جو کچھ گزرتی ہے کس سے بیاں کروں
غزل
کیوں کہہ کے دل کا حال اسے بد گماں کروں
بیخود دہلوی