EN हिंदी
کیوں جل بجھے کہیں تو گرفتار بولتے | شیح شیری
kyun jal-bujhe kahin to giraftar bolte

غزل

کیوں جل بجھے کہیں تو گرفتار بولتے

سیف زلفی

;

کیوں جل بجھے کہیں تو گرفتار بولتے
زنداں میں چپ رہے تو سر دار بولتے

گھر گھر یہاں تھا گوش بر آواز دیر سے
آتی صدا تو سب در و دیوار بولتے

ہوتا تمہارے خون کا دریا جو موجزن
طوفاں سمندروں میں بہ یک بار بولتے

دیتا تمہارا نطق دہائی تو فطرتاً
لوح و قلم کے بام سے فن کار بولتے

تم بولتے اگر تو تمہاری ندا کے ساتھ
بستی کے سارے کوچہ و بازار بولتے

اب خلوتوں میں شور مچانے سے فائدہ
تھا حوصلہ تو بر سر دربار بولتے

دست خزاں تھا خانہ بر انداز جس گھڑی
کیوں گنگ تھے چمن کے پرستار بولتے

سورج نے کتنے جسم جلائے ہیں راہ میں
اتنا تو زیر سایۂ دیوار بولتے

لاتا وفا کی جنس جو بازار میں کوئی
بولی بقدر ظرف خریدار بولتے

زلفیؔ کلی کلی میں مچلتا نیا لہو
آتا وہ سیل رنگ کہ گلزار بولتے