کیوں ہر طرف تو خوار ہوا احتساب کر
ناراض کیوں ہے تجھ سے خدا احتساب کر
حاصل تو ہو گئیں تجھے ساری سہولتیں
رزق حلال کتنا ملا احتساب کر
ہر دن کریدتا ہے تو اپنے ہی زخم کو
کیا ہے یہی مرض کی دوا احتساب کر
کب تک رہے گا روشنی کے انتظار میں
جلتا نہیں ہے خود سے دیا احتساب کر
گمنام ہو گیا ہے تو اپنی ہی بزم میں
کن غلطیوں کی ہے یہ سزا احتساب کر
اپنے کئے دھرے کا اب احیاؔ حساب کر
دنیا ملی کہ دین ملا احتساب کر
غزل
کیوں ہر طرف تو خوار ہوا احتساب کر
احیا بھوجپوری