کیوں دیا تھا؟ بتا! میری ویرانیوں میں سہارا مجھے
میں اداسی کے ملبے تلے دفن تھی، کیوں نکالا مجھے
ایسی نازک تھی گھر کے پرندوں سے بھی خوف کھاتی تھی میں
یہ کہاں، کن درندوں کے جنگل میں پھینکا ہے تنہا مجھے
خواب ٹوٹے تھے اور کرچیاں اب بھی آنکھوں میں پیوست ہیں
اب یہ کس منہ سے پھر خواب کی انجمن نے پکارا مجھے
آٹھ تک تو یہ گنتی بھی آسان تھی تو نے پڑھ لی، سو اب...
کیلکولیٹر پکڑ اور سنا! اپنا نو کا پہاڑا مجھے
یار تھا تو کبھی، تیری نظمیں ہمیشہ سلامت رہیں
داغ دینے کو پھر یہ ردا چاہئے تو بتانا مجھے
بس یوں ہی درد کا ابر شعروں کی بارش میں ڈھلتا گیا
وارثان سخن! کوئی تمغہ نہیں ہے کمانا مجھے
کوئی ایسا طریقہ بتا تیری آواز کو چوم لوں
اف یہ تیرا ''فریحہ! مری جان'' کہہ کر بلانا مجھے
غزل
کیوں دیا تھا؟ بتا! میری ویرانیوں میں سہارا مجھے
فریحہ نقوی