کیوں چپ ہیں وہ بے بات سمجھ میں نہیں آتا
یہ رنگ ملاقات سمجھ میں نہیں آتا
کیا داد سخن ہم تمہیں دیں حضرت ناصح
ہے سو کی یہ اک بات سمجھ میں نہیں آتا
شیخ اور بھلائی سے کرے تذکرہ تیرا
اے پیر خرابات سمجھ میں نہیں آتا
سایہ بھی شب ہجر کی ظلمت میں چھپا ہے
اب کس سے کریں بات سمجھ میں نہیں آتا
مشتاق ستم آپ ہیں مشتاق اجل ہم
پھر کیوں یہ رکا ہات سمجھ میں نہیں آتا
روکا انہیں جانے سے سر شام تو بولے
کیوں کرتے ہو تم رات سمجھ میں نہیں آتا
دل ایک ہے اور اس کے طلب گار ہزاروں
دیں کس کو یہ سوغات سمجھ میں نہیں آتا
کیوں کر کہوں احسنؔ کہ عدو دوست ہے میرا
ہو نیک وہ بد ذات سمجھ میں نہیں آتا
غزل
کیوں چپ ہیں وہ بے بات سمجھ میں نہیں آتا
احسن مارہروی