کیوں چاند کو سمجھے کوئی پیغام کسی کا
صحرا کی کڑی دھوپ بھی ہے نام کسی کا
ٹوٹی ہوئی اک قبر کے کتبے پہ لکھا تھا
یہ چین کسی کا ہے یہ آرام کسی کا
خوابوں کے دریچے میں ہو جیسے کوئی چہرہ
یوں درد نکھرتا ہے سر شام کسی کا
غزلوں پہ بھی ہوتا ہے کسی شکل کا دھوکا
تاروں کو بھی دیتا ہوں کبھی نام کسی کا
تاریخ کے پھیلے ہوئے صفحات پہ جیسے
زخموں کی نمائش ہے فقط کام کسی کا
ہاتھوں کی لکیریں ہیں یہ ویران سی راہیں
سوکھے ہوئے پتے ہیں یہ انجام کسی کا
جامیؔ جو اتر جائے اندھیروں کے بدن میں
وہ شعلۂ تخلیق ہے انعام کسی کا
غزل
کیوں چاند کو سمجھے کوئی پیغام کسی کا
خورشید احمد جامی

