کیوں بیٹھ گئے غبار سے ہم
کچھ کہہ نہ سکے بہار سے ہم
یہ زندگی عمر بھر کا رونا
گھبرا گئے انتظار سے ہم
وہ جبر کی لذتوں کا عالم
باز آئے اس اختیار سے ہم
ہنستے ہیں کہ ہنس سکے زمانہ
خوش ہیں تو اس اعتبار سے ہم
یوں بھی تو سکوں ملا ہے برسوں
پھرتے رہے بے قرار سے ہم
وہ لمحہ ہے آج تک گریزاں
جب تم سے تھے ہم کنار سے ہم
اب آخر شب نظرؔ ہے شاید
پھر جیسے ہیں ہوشیار سے ہم

غزل
کیوں بیٹھ گئے غبار سے ہم
قیوم نظر