کیوں امبر کی پہنائی میں چپ کی راہ ٹٹولیں
اپنی ذات کی بنت ادھیڑیں سانس میں خاک سمو لیں
دھول میں لپٹی اس خواہش کی ساری پرتیں کھولیں
دھرتی جنگل صحرا پربت پاؤں بیچ پرو لیں
اپنے خواب کے ہاتھوں میں تکلے کی نوک چبھو لیں
کسی محل کے سناٹے میں ایک صدی تک سو لیں
ایک صدا کے لمس میں وقت کے چاروں کھونٹ بھگو لیں
گونج میں لپٹے یاد کے کہنہ رستوں پر پھر ہو لیں
اک منظر میں اک دھندلے سے عکس میں چھپ کے رو لیں
ہم کس خواب میں آنکھیں موندیں کس میں آنکھیں کھولیں
غزل
کیوں امبر کی پہنائی میں چپ کی راہ ٹٹولیں
عنبرین صلاح الدین