EN हिंदी
کیوں آنکھ سے سرخی اب چھلکی ہوئی لگتی ہے | شیح شیری
kyun aankh se surKHi ab chhalki hui lagti hai

غزل

کیوں آنکھ سے سرخی اب چھلکی ہوئی لگتی ہے

بانو بی

;

کیوں آنکھ سے سرخی اب چھلکی ہوئی لگتی ہے
یہ نیند کی رانی بھی روٹھی ہوئی لگتی ہے

یادوں کا تسلسل ہے گھنگھور جدائی ہے
ساون کی طرح یہ بھی چھائی ہوئی لگتی ہے

سوجھے نہ مداوا کیوں خود میرے مسیحا کو
زخموں کی طرح چاہت رستی ہوئی لگتی ہے

آواز یہ کس نے دی پھر یاد یہ کون آیا
بے تابئ دل کچھ کچھ سنبھلی ہوئی لگتی ہے

گزری ہے گلابوں کو دامن میں خزاں بھر کے
ہر شاخ چمن لیکن مہکی ہوئی لگتی ہے

بازار محبت کے تاجر ہیں ستم پیشہ
اے بانوؔ تری قیمت لگتی ہوئی لگتی ہے