EN हिंदी
کیا یہ بت بیٹھیں گے خدا بن کر | شیح شیری
kya ye but baiThenge KHuda ban kar

غزل

کیا یہ بت بیٹھیں گے خدا بن کر

شاد لکھنوی

;

کیا یہ بت بیٹھیں گے خدا بن کر
اللہ اللہ اے برہمن کر

ہوگا برباد مثل کاغذ باد
سر کو کھینچا فلک پہ گر تن کر

خنجر و تیغ کر گلے پہ رواں
پھیر کر آنکھ کج نہ چتون کر

اے تری شان ہو گیا انساں
ایک مشت غبار بن ٹھن کر

پاک دامن ہے مریم ثانی
چشم تر طفل اشک کو جن کر

دل کے ڈسنے میں ہے یہ کالا ناگ
زلف پیچاں سے بل نہ ناگن کر

تو اگر ہڈیوں کا مالا ہے
اسم اعظم کی درد سمرن کر

ہے یہ چھلنی مزار شادؔ غریب
دھوپ آتی ہے لاش پر چھن کر