کیا یہ بت بیٹھیں گے خدا بن کر
اللہ اللہ اے برہمن کر
ہوگا برباد مثل کاغذ باد
سر کو کھینچا فلک پہ گر تن کر
خنجر و تیغ کر گلے پہ رواں
پھیر کر آنکھ کج نہ چتون کر
اے تری شان ہو گیا انساں
ایک مشت غبار بن ٹھن کر
پاک دامن ہے مریم ثانی
چشم تر طفل اشک کو جن کر
دل کے ڈسنے میں ہے یہ کالا ناگ
زلف پیچاں سے بل نہ ناگن کر
تو اگر ہڈیوں کا مالا ہے
اسم اعظم کی درد سمرن کر
ہے یہ چھلنی مزار شادؔ غریب
دھوپ آتی ہے لاش پر چھن کر
غزل
کیا یہ بت بیٹھیں گے خدا بن کر
شاد لکھنوی