کیا وہ اب نادم ہیں اپنے جور کی روداد سے
لائے ہیں میرٹھ جو آخر مجھ کو فیض آباد سے
سیر گل کو آئی تھی جس دم سواری آپ کی
پھول اٹھا تھا چمن فخر مبارک باد سے
ہر کس و ناکس ہو کیونکر کامگار بے خودی
یہ ہنر سیکھا ہے دل نے اک بڑے استاد سے
اک جہاں مست محبت ہے کہ ہر سو بوئے انس
چھائی ہے ان گیسوؤں کی نکہت برباد سے
اب تلک موجود ہے کچھ کچھ لگا لائے تھے ہم
وہ جو اک لپکا کبھی نہ خاک جہاں آباد سے
دعوی تقوی کا حسرتؔ کس کو آتا ہے یقیں
آپ اور جاتے رہیں پیر مغاں کی یاد سے
غزل
کیا وہ اب نادم ہیں اپنے جور کی روداد سے
حسرتؔ موہانی