EN हिंदी
کیا وصل کی امید مرے دل کو کبھی ہو | شیح شیری
kya wasl ki ummid mere dil ko kabhi ho

غزل

کیا وصل کی امید مرے دل کو کبھی ہو

نوح ناروی

;

کیا وصل کی امید مرے دل کو کبھی ہو
اس شوخ کی تصویر بھی جب مجھ سے کھنچی ہو

مجھ کو نہ بلاتے ہیں نہ آتے ہیں مرے گھر
افسوس ہے ان سے نہ یہی ہو نہ وہی ہو

اے پیر مغاں مجھ کو ترے سر کی قسم ہے
توبہ تو کہاں توبہ کی نیت بھی جو کی ہو

وہ مجھ سے یہ کہتے ہیں کہ محشر کو ملوں گا
میں ان سے یہ کہتا ہوں کہ جو کچھ ہو ابھی ہو

اے نوحؔ ہمیں عشق میں پروا نہیں اس کی
آزار ہو یا لطف ہو غم ہو کہ خوشی ہو