کیا وصل کی امید مرے دل کو کبھی ہو
اس شوخ کی تصویر بھی جب مجھ سے کھنچی ہو
مجھ کو نہ بلاتے ہیں نہ آتے ہیں مرے گھر
افسوس ہے ان سے نہ یہی ہو نہ وہی ہو
اے پیر مغاں مجھ کو ترے سر کی قسم ہے
توبہ تو کہاں توبہ کی نیت بھی جو کی ہو
وہ مجھ سے یہ کہتے ہیں کہ محشر کو ملوں گا
میں ان سے یہ کہتا ہوں کہ جو کچھ ہو ابھی ہو
اے نوحؔ ہمیں عشق میں پروا نہیں اس کی
آزار ہو یا لطف ہو غم ہو کہ خوشی ہو
غزل
کیا وصل کی امید مرے دل کو کبھی ہو
نوح ناروی