EN हिंदी
کیا وصل کے اقرار پہ مجھ کو ہو خوشی آج | شیح شیری
kya wasl ke iqrar pe mujhko ho KHushi aaj

غزل

کیا وصل کے اقرار پہ مجھ کو ہو خوشی آج

نوح ناروی

;

کیا وصل کے اقرار پہ مجھ کو ہو خوشی آج
اس کی بھی یہ صورت ہے کبھی کل ہے کبھی آج

وہ ہاتھ میں تلوار لئے سر پہ کھڑے ہیں
مرنے نہیں دیتی مجھے مرنے کی خوشی آج

ملنا جو نہ ہو تم کو تو کہہ دو نہ ملیں گے
یہ کیا کبھی پرسوں ہے کبھی کل ہے کبھی آج

کیا بات ہے چھپتی ہی نہیں بات ہماری
جو ان سے کہی تھی وہ رقیبوں سے سنی آج

سرخی بھی ہے آنکھوں میں قدم کو بھی ہے لغزش
چھپ کر کہیں اے نوحؔ ضرور اپنے پی آج