EN हिंदी
کیا تم نے بھی ہے کل رتجگا کیا | شیح شیری
kya tumne bhi hai kal ratjaga kiya

غزل

کیا تم نے بھی ہے کل رتجگا کیا

نذیر نظر

;

کیا تم نے بھی ہے کل رتجگا کیا
تمہیں بھی عشق ہم سے ہو گیا کیا

مرا تو مدعا تو مسئلہ تھی
بچھاتا گر تجھے تو اوڑھتا کیا

یہاں جس کو بھی دیکھو زعم میں ہے
ہمارے شہر کو آخر ہوا کیا

مرے اطراف میں تیری صدا تھی
تجھے دیر و حرم میں ڈھونڈھتا کیا

ہے تیرے ذہن میں ترک تعلق
تجھے پھر ہم سا کوئی مل گیا کیا

بھٹکنا جب میری قسمت میں شامل
پتہ صحراؤں کا پھر پوچھنا کیا

میں اس کے ساتھ اڑتا جا رہا تھا
مرے پیچھے تھی وہ بہکی ہوا کیا

زمانہ پر بھروسہ کر لیا ہے
نظرؔ تو ہو گیا ہے باؤلا کیا