کیا تم کو علاج دل شیدا نہیں آتا
آتا ہے پر اس طرح کہ گویا نہیں آتا
ہو جاتی تھی تسکین سو اب فرط الم سے
اس بات کو روتے ہیں کہ رونا نہیں آتا
تم ہو کہ تمہیں وعدہ وفائی کی نہیں خو
میں ہوں کہ مجھے تم سے تقاضا نہیں آتا
ہے پاس یہ کس کی نگہ محو حیا کا
لب تک جو مرے حرف تمنا نہیں آتا
ان کی نگہ مست کے جلوے ہیں نظر میں
بھولے سے بھی ذکر مے و مینا نہیں آتا
شوخی سے وہ معنائے ستم پوچھ رہے ہیں
اب لفظ جفا بھی انہیں گویا نہیں آتا
میں درد کی لذت سے رضامند ہوں حسرتؔ
مجھ کو ستم یار کا شکوا نہیں آتا
غزل
کیا تم کو علاج دل شیدا نہیں آتا
حسرتؔ موہانی