EN हिंदी
کیا طرز کلام ہو گئی ہے | شیح شیری
kya tarz-e-kalam ho gai hai

غزل

کیا طرز کلام ہو گئی ہے

داغؔ دہلوی

;

کیا طرز کلام ہو گئی ہے
ہر بات پیام ہو گئی ہے

کچھ زہر نہ تھی شراب انگور
کیا چیز حرام ہو گئی ہے

آگے تو نہیں نہیں سنی تھی
اب تکیہ کلام ہو گئی ہے

جاتے جاتے پیام بر کو
ہر صبح سے شام ہو گئی ہے

اب دیکھیے مشق پائمالی
تعریف خرام ہو گئی ہے

پہنچے ہیں جب اس کی بزم میں ہم
مجلس ہی تمام ہو گئی ہے

عالم کو ہے دعوی محبت
یہ خاص بھی عام ہو گئی ہے

اس بت کے ہمیں نہیں ہیں بندے
مخلوق غلام ہو گئی ہے

برباد نہ ہوگی تیری الفت
تجویز مقام ہو گئی ہے

جاگیر جنوں کی قیس کے بعد
اب داغؔ کے نام ہو گئی ہے