EN हिंदी
کیا سوچتے رہتے ہو تصویر بنا کر کے | شیح شیری
kya sochte rahte ho taswir bana kar ke

غزل

کیا سوچتے رہتے ہو تصویر بنا کر کے

سراج اجملی

;

کیا سوچتے رہتے ہو تصویر بنا کر کے
کیوں اس سے نہیں کہتے کچھ ہونٹ ہلا کر کے

گھر اس نے بنایا تھا اک صبر و رضا کر کے
مٹی میں ملا ڈالا احسان جتا کر کے

جو جان سے پیارے تھے نام ان نے ہی پوچھا ہے
حیران ہوا میں تو اس شہر میں آ کر کے

تہذیب مصلیٰ سے واقف ہی نہ تھا کچھ بھی
اور بیٹھ گیا دیکھو سجادے پہ آ کر کے

مدت سے پتہ اس کا معلوم نہیں کچھ بھی
مشہور بہت تھا جو آشفتہ نوا کر کے