کیا سوچتے رہتے ہو تصویر بنا کر کے
کیوں اس سے نہیں کہتے کچھ ہونٹ ہلا کر کے
گھر اس نے بنایا تھا اک صبر و رضا کر کے
مٹی میں ملا ڈالا احسان جتا کر کے
جو جان سے پیارے تھے نام ان نے ہی پوچھا ہے
حیران ہوا میں تو اس شہر میں آ کر کے
تہذیب مصلیٰ سے واقف ہی نہ تھا کچھ بھی
اور بیٹھ گیا دیکھو سجادے پہ آ کر کے
مدت سے پتہ اس کا معلوم نہیں کچھ بھی
مشہور بہت تھا جو آشفتہ نوا کر کے

غزل
کیا سوچتے رہتے ہو تصویر بنا کر کے
سراج اجملی